1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارادے پانیوں جیسے

26 فروری 2024

نئے سال کے آغاز سے پہلے ہی اگلے برس کے لیے سینکڑوں ارادے باندھے جاتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب انہیں عملی جامہ پہنانے کا وقت آتا ہے تو ہم بدقسمتی سے ہم اپنے ارادوں پر قائم نہیں رہ پاتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4cSv4
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

نئے سال کے آغاز سے پہلے ہی آنے والے سال کی دھوم شروع ہو ہی جاتی ہے۔ ساتھ ہی اگلے سال کے اہداف، منصوبہ بندی، کیا کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، سینکڑوں ارادے باندھے جاتے ہیں۔ ڈائریوں کے صفحات کالے کیے جاتے ہیں۔ نئے اہداف کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا، دوست، حلقہ احباب سب ہی نیو ایئر ریزولیوشن طے کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سارا زور صرف جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی دکھائی دیتا ہے۔

اس سال سردیوں کی چھٹیوں میں جب میرے بیٹے نے اصرار کیا کہ بنیادی صحت کو بہتر بنانے کے لیے جم جوائن کریں۔ تو ہمارا یہ کہنا تھا کہ کوئی حرج تو نہیں لیکن بس ایک ہفتہ ٹھہر جاؤ۔ بیٹے نے پوچھا۔۔۔۔ وہ کیوں؟ تو ہم نے اسے بتایا کہ جنوری کے آغاز میں رش کا عالم عروج پہ ہو گا۔ نئے سال کے آغاز پر لوگوں کی کافی بڑی تعداد صحت مند زندگی کی طرف بڑھنے کا ہدف مقرر کرتی ہے۔ اور زور و شور سے اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جوش و خروش صرف ایک ہفتے کا مہمان ہوتا ہے۔ اور اگلے ہفتے سے ہی جم میں رش کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ تو ہم زیادہ بہتر ماحول میں ایکسرسائز کر پائیں گے۔

اسی طرح سے کچھ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، جنہوں نے کوئی نیا ہنر سیکھنے کا ہدف مقرر کیا ہوتا ہے۔ اور پھر اس ہنر کو سیکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جاتے ہیں۔ چاہے وہ کسی ادارے میں داخلہ لینا ہو یا پھر اس ہنر سے متعلق ضروری سامان کی خریداری ہو، اور پھر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان سارے کاموں کو کرنے کے بعد جب سیکھنے کا اور مستقل مزاجی سے روٹین میں پریکٹس کرنے کا موقع آتا ہے تو ہم بدقسمتی سے اس پر قائم نہیں رہ پاتے۔ ایک دن موڈ نہیں بنتا تو دوسرے دن مہمان آجاتے ہیں، پھر تیسرے دن دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ کا پروگرام بن جاتا ہے اور پھر ہم بھول ہی جاتے ہیں کہ ہم نے ایک نئی روٹین طے کی تھی۔

امریکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 23 فیصد لوگ جو نئے سال کے لیے ایسے منصوبے بناتے ہیں ان کے منصوبے محض چند سانسیں ہی لے پاتے ہیں اور پہلے ہفتے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ 43 فیصد افراد کے منصوبوں کا سورج جنوری کے سورج کے ساتھ ہی غروب ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی منصوبہ بندی کا فائدہ ہی کیا، جس پر چند دن سے زیادہ عمل درآمد ممکن ہی نا ہو۔ ایسے خواب دیکھے ہی کیوں جائیں، جن کو حاصل کرنے کے لیے آپ سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جو پہلی بات سمجھ میں آتی ہے وہ تو یہ ہے کہ نئے سال کے اہداف محض ایک روایتی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ یعنی بھیڑ چال کا حصہ بن کر یہ فہرست مرتب تو ضرور کر لی جاتی ہے لیکن ان کو سنجیدگی سے لینا یا ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ہوتا۔ یعنی یہ وہ خواب ہوتے ہیں جو آپ کی نیندیں نہیں اڑاتے، یا جن کو حاصل کرنے کی آگ اندر موجود نہیں ہوتی۔ یہ زبانی کلامی اہداف محض ایک خیالی پلاؤ سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم منصوبہ بندی کرتے ہوئے یا اہداف مقرر کرتے ہوئے اس بات کو قطعا فراموش کر دیتے ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے لیے کتنی محنت درکار ہوگی یا ان خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ہمیں کتنی جدوجہد کرنی ہوگی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم اپنی زندگی میں جس تبدیلی کے خواہش مند ہیں اس کی ہماری نظر میں بنیادی وجہ کیا ہے۔ بنیادی وجہ جانے بغیر کسی بھی تبدیلی کی خواہش پال لینا ایسا ہی ہے جیسے بنا روح کے جسم۔

اس تناظر میں ایک اور انتہائی ضروری بات یہ کہ تبدیلی کبھی بھی ایک دم سے نہیں آیا کرتی۔ کسی بھی منزل کو پانے کے لیے یا کسی پہاڑ کو سر کرنے کے لیے ہمیں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا ہوتے ہیں۔ مستقل مزاجی سے اٹھائے گئے یہ چھوٹے چھوٹے بی بی سٹیپ ہمیں اپنی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن ہم سب سے پہلی غلطی یہی کرتے ہیں کہ انتہائی جوش و خروش سے تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ اگلا ہی قدم چاند پر جا پڑے۔ اور پھر جب اگلا قدم چاند پر نہیں پڑتا تو جلد ہی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس طرح ہماری ہمت ٹوٹنے لگتی ہے اور ہم اپنے منزل پانے کی خواہش سے دستبردار ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر کچھ یوں بھی ہوتا ہے کہ اپنی زندگی میں کسی بہتر سمت بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا پڑتا ہے اور ہم اکثر اوقات اس تکلیف کو اٹھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔

آج کل کے اس مشینی دور میں تو ویسے بھی ہر شخص ذہنی ارتکاز کی کمی کا شکار ہے۔ اسی لیے مستقل مزاجی کی خوبی ڈھونڈے نہیں ملتی۔ ہر شخص چاہے وہ ذہنی کام کر رہا ہو یا جسمانی،  کام کے دوران ہی وقتاً فوقتاً کبھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس چیک کرنے میں مگن ہوجاتا ہے تو کبھی کسی میسج موصول ہونے کی ٹیون اس کے ارتکاز کو توڑ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ موبائل فونز میں گیمز کھیلنے کی لت کا شکار ہونے کے سبب کام کے دوران ہی گیم کھیلنے لگتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک بہتر حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ ہم اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود کو کسی ایسے گروپ کا حصہ بنا لیں جن کے مقاصد ایک جیسے ہوں۔ اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھیں۔ ایک پیچھے رہ جائے تو دوسرا اس کا حوصلہ بڑھاکر اس کو آگے کھینچ لے۔ اور اپنے گول سیٹ کرتے وقت چھوٹے چھوٹے ہدف مقرر کیے جائیں۔ کسی بھی منزل تک پہنچنے کے لیے اس کی منصوبہ بندی آسان انداز میں کریں اور روز کا ہدف صرف اتنا ہی مقرر کریں جس پر آسانی سے عمل کر سکیں اور پھر مرحلہ وار اپنی رفتار بڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اپنی منزل کو پانے سے محروم رہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔