1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

اتنے زیادہ پاکستانی یورپ پہنچنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟

1 مارچ 2023

شدید معاشی بحران، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عدم تحفظ اور ملازمتوں کی کمی جیسے عوامل بہت سے پاکستانیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے خطرناک سفر کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4O7tF
Italien Kalabrien Cutro | Bootsunglück mit vielen Toten
تصویر: Alessandro Serranó/AGF/Avalon/Photoshot/picture alliance

گزشتہ اتوار کے روز تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک کشتی کے ڈوبنے سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے۔ اس جان لیوا حادثے نے جنوبی ایشیا کے اس ملک میں سنگین معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بحث چھیڑ دی ہے، جو بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک بہتر مستقبل کی تلاش میں ایسے خطرناک سفر کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

جنوبی اٹلی کی ساحلی چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد مہاجرین سے بھری یہ کشتی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں 14 بچوں سمیت کم از کم 64 افراد ہلاک ہوئے۔ زندہ بچ جانے والے تقریبا 80 مہاجرین کا کہنا تھا کہ کشتی پر تقریباً 180 سے 200 افراد سوار تھے۔

اطالوی حکام نے اس حادثے کے تناظر میں ایک ترک اور دو پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ کشتی پر 20 پاکستانی شہری سوار تھے اور ان میں سے 16 زندہ بچ گئے ہیں لیکن چار ابھی تک لاپتہ ہیں۔

تباہ کن معاشی بحران

بہت سے پاکستانیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے دن بدن بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ہو کر 14.6 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں مزید نو ملین افراد ''غربت کی دلدل‘‘ میں پھنس سکتے ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی 220 ملین آبادی کا پانچواں حصہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

یہ تارکین وطن بہتر مستقبل کے خواب لیے یورپ چلے تھے

اس وقت افراط زر کی شرح تقریباﹰ 30 فیصد کے قریب ہے، دولت کی تقسیم کا فرق بہت زیادہ ہے اور امیروں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگیاں بہت کم ہیں۔ صنعتی گروپوں کے مطابق صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً 70 لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

اٹلی کے بعد لیبیا میں بھی کشتی حادثہ، تین پاکستانی ہلاک

ماہر معاشیات اور روٹس فار ایکویٹی نامی این جی او کی بانی عذرا طلعت سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس چوری کے بڑھتے ہوئے مسئلے نے حکومتی قرضوں کے بوجھ کو بھی بڑھا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی سطح پر پانچ فیصد امراء کل زرعی زمین کے تقریباً دو تہائی حصے پر قابض ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ امیر جاگیردار ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ٹیکسوں کا بوجھ صرف غریبوں پر ہی ڈالا جاتا ہے۔‘‘

ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت کو معیشت کو متحرک کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مکانات اور سڑکیں بنا کر پاکستان مزید لاکھوں افراد کو غربت میں جانے سے روک سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملکی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

صوبہ پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے ایک 42 سالہ مزدور میاں غلام شبیر نے کہا کہ ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی نوجوان شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں معاشی بحالی کی کوئی امید نہیں ہے جبکہ انہوں نے خود 2015ء  میں اٹلی ہجرت کرنے کی کوشش کی تھی۔

غلام شبیر کا مزید کہنا تھا، ''دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی مزدور یہاں کچھ زیادہ نہیں کما پاتے اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ  کافی پیسے کما سکتے ہیں، جن سے ان کے خاندانوں کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا، ''اسی لیے لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل  کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے رہیں گے۔‘‘

عوامی ورکرز پارٹی کی لاہور میں مقیم رہنما عابدہ چوہدری نے نشاندہی کی کہ پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ''ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں بند کرتے ہیں یا انہیں ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اٹلی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔‘‘

ایس خان، اسلام آباد (ا ا/ ع ب)