1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہایران

ابراہیم رئیسی : ایرانی سپریم لیڈر سے قربت والے سخت گیر صدر

19 مئی 2024

ابراہیم رئیسی کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سخت چیلنجز کا سامنا رہا۔رئیسی کو ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کے الزام میں واشنگٹن کی پابندیوں کی ‘بلیک لسٹ‘ میں رکھا گیا۔

https://p.dw.com/p/4g3Y0
Wahlkampf in Teheran | Foto von Ebrahim Raisi und Ayatollah Ali Chamenei
تصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

آج اتوار کے روز 63 سالہ رئیسی کی صحت اور سلامتی سے متعلق خدشات اس وقت پیدا ہوئے، جب ایرانی سرکاری خبر رساں اداروں کی جانب سے یہ خبر سامنے آئی کے آزربائیجان کے سرکاری دورے پر سے واپسی کے دوران رئیسی کے وفد میں شامل ایک ہیلی کاپٹر کو دور افتادہ مغربی پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیا۔ حادثے کی وجہ خراب موسم کو قرار دیا گیا تاہم رئیسی کی حالت کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

جب تلاش اور امدادی ٹیمیں ایران کے صوبے مشرقی آذربائیجان میں پہنچی جہاں شدید دھند چھائی ہوئی تھی اسلامی جمہوریہ کے سرکاری ٹی وی نے رئیسی کے آبائی شہر میں وفادار نماز کی فوٹیج نشر کی۔

ابتدائی زندگی اور سیاسی کیرئیر

سلیقے سے سر پر سجی سیاہ پگڑی اور مخصوص مذہبی لباس میں ملبوس ایران کے انتہائی قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی، جو بیرون ملک محاذ آرائی اور اندرون ملک انتہا درجے کے احتجاجی مظاہروں کے درمیان بھی اپنے موقف اور کرسی دونوں پر ہی ڈٹے رہے۔

1960ء میں ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں پیدا ہونے والے رئیسی نے خامنہ ای کے زیر سایہ دینیات اور اسلامی فقہ کا علم حاصل کیا۔ انہوں نے جمیلہ عالم الحودہ سے شادی کی اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

نام نہاد امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹنے اور اسلامی انقلاب کے دور میں 20 سالہ رئیسی کو ایرانی شہر کاراج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا۔انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل، 2004 سے ایک دہائی تک جوڈیشل اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے۔

 

2016 میں سپریم لیڈر خامنہ ای نے رئیسی کو ایک چیریٹی فاؤنڈیشن کا انچارج مقرر کیا۔ یہ خیراتی ادارہ مشہد میں موجود امام رضا کے مزار کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

تین سال بعد ایرانی سپریم لیڈر نے انہیں جوڈیشل اتھارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ رئیسی ایران میں انتہائی طاقتور سمجی جانے والی ماہرین کی اسمبلی کے رکن بھی رہے، جو ایران میں سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ایرانی میڈیا نے انہیں شیعہ علما کی درجہ بندی میں اعلی مقام کے حامل ‘آیت اللہ‘ کے نام سے پکارنا شروع کیا۔

رئیسی کو اپنے دور اقدار میں 'انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کے الزام کے ساتھ واشنگٹن کی پابندیوں کی ‘بلیک لسٹ‘ میں رکھا گیا۔ لیکن تہران میں حکام کی جانب سے ان الزامات کو کالعدم قرار دے کر مسترد کیا گیا۔

ایران کی جلاوطن اپوزیشن اور انسانی حقوق کے گروپوں کے لیے رئیسی ایک ایسا نام رہا جو  1988 میں بائیں بازو کے لوگوں کی اجتماعی پھانسی کے طور پر یاد رکھا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب رئیسی تہران میں انقلابی عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر تھے۔

2018 میں اور پھر 2020 میں ان سے ان اجتماعی پھانسیوں کی بابت سوال کیا گیا۔ جواب میں انہوں نے ایسے کسی بھی معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔

اقتدار یا امتحان؟

 اس کے بعد رئیسی نے 2021 کےء انتخابات میں کامیابی کے بعد ملکی اقتدار سنبھالا لیکن پھر جلد ہی انہیں قومی سطح پر کئی مظاہروں اور عوامی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ خامنہ ای کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رئیسی نے بھی ہمیشہ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے ایک سخت لہجہ اور موقف اپنائے رکھا۔شیعہ اکثریتی ملک ایران ہمیشہ اعلانیہ اپنے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کی کھل کر مخالفت کرتا آیا ہے۔

رئیسی نے ایک ایسے الیکشن کے نتیجے میں اقتدار سنبھالا تھا، جس میں ملک کی آدھے سے زائد آبادی نے اپنا ووٹ کا حق استعمال ہی نہیں کیا اور کئی مخالفین کو ان کے خلاف الیکشن لڑنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

رئیسی نے عملیت اور اعتدال پسند حسن روحانی کی جگہ لی تھی۔ روحانی کو دنیا عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء کا جوہری معاہدہ طے کرنے کے حوالے سے یاد رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں ایران پر عائد کئی غیر ملک پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔

دوسرے انتہائی قدامت پسند ایرانی رہنماؤں کی طرح رئیسی نے بھی اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یکطرفہ طور پر 2018ء میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ایران پر دوبارہ عائد پابندیوں کے بعد واشنگٹن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

رئیسی نے سماجی اور معاشی بحران میں گھرے ایک ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔انہوں نے خود کو ہمیشہ بدعنوانی سے لڑنے والے چیمپیئن اور غریب دوست لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ رئیسی کے دور حکومت میں کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کیا گیا تاہم ایران میں بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں بڑھنے لگیں، جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔

تاہم 2022ء میں تہران نے ایک اور زوال دیکھا، جب خواتین کے لیے ایک مخصوص ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ملکی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کی خبر شہ سرخیوں میں آئی۔ اس کے بعد ملک گیر احتجاج کے سلسلوں کی ایک ایسی آگ نے زور پکڑا، جس کی تپش ملک میں اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔

سعودی عرب سےتعلقات کی بحالی 

مارچ 2023 میں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا جب ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک طویل عرصے سے ٹھنڈے پڑے سفارتی تعلقات میں کچھ گرمجوشی پیدا ہوئی۔ ان دونوں ممالک کے مابین دیرینہ علاقائی اور مذہبی خیالات میں تفریق کی وجہ سے پنپتی دشمنی نے ایک حیرت انگیز موڑ لیا۔ ریاض اور تہران کے مابین ایک سفارتی معاہدے کا اعلان اور تعلقات میں بحالی کی خبر رئیسی کے سیاسی کرئیر کا ایک اہم باب رہا۔

تاہم اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ کی جنگ نے ایک بار پھر علاقائی کشیدگی کو بڑھا دیا۔ تہران نے ایک اور بڑا قدم  اس وقت اٹھایا، جب دنیا کے نقشے پر موجود بڑی طاقتوں کی پرواہ کیے بغیر اس نے اسرائیل پر یکے بعد دیگر کئی میزائل داغے۔

آج اتوار کے روز ہی ایک بیان میں رئیسی نے فلسطینی عوام کے لیے ایران کی حمایت پر زور دیا ۔ یہ اس ملک میں آںے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم جز رہا ہے۔ ''فلسطین دنیا کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔‘‘

 ر ب/ ش ر (ایجنسیاں)