1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب ہم انٹرنیٹ کے بغیر نہیں رہ سکتے

24 مئی 2023

عصر حاضر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی گزارنا تقریبا ناممکن بن چکا ہے۔ لوگ اس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں، جیسے زندہ رہنے کے لیے پانی، آکسیجن اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4RlDQ
Pakistan | Smartphone
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

روزانہ دیوانگی کی حد تک لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اگر صارفین چند گھنٹے ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی یعنی انٹرنیٹ سے دور رہیں تو انہیں حقیقتاً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کوئی اہم چیز کھو گئی ہے اور  یہ دورانیہ ایک دن سے ذیادہ تجاوز کر جائے تو کچھ لوگ یوں تھکے تھکے بیمار دکھائی دیتے ہیں گویا وہ ''انٹرنیٹ کے مریض‘‘ ہوں۔

انٹرنیٹ کے حوالے سے ایسا تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ یہ کوئی سپر فوڈ ہے، جو انہیں ہشاش بشاش رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیاسی تناؤ کے باعث لا اینڈ آڈر  کو برقرار رکھنے کی غرض سے تین دن انٹرنیٹ کی بندش کی گئی۔ سماجی رابطے منقطع ہونے سے ہزاروں لوگوں کو لگا کہ ان کی سانسیں ہی بند ہو جائیں گی کیونکہ لوگوں کو اس کے ذریعے اپنے خاندان، حلقہ احباب، کاروبار سے جڑے رہنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔

انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کے ساتھ ہی ہم سب سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ 2023 کا انسان انٹرنیٹ کو بنیادی حقوق  جیسے کہ روٹی کپڑا اور مکان کے برابر گرداننے لگا ہے۔ اچانک انٹرنیٹ بند ہونے پر فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے لاکھوں افراد یہ پوچھتے نظر آئے کہ انٹرنیٹ سروسز کو کیا ہوا ہے؟آپ کا نیٹ کیسا چل رہا ہے؟

عوام نے انٹرنیٹ کے بغیر تین دن گن گن کر گزارے۔ سکول و کالجز میں بھی غیر معینہ مدت کے لیے چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، جس پر نوجوان نسل شدید تنہائی و بوریت کا شکار نظر آئی حتی کہ گھر کے بزرگ بھی گم سم کیفیت میں مبتلا رہے۔

 ایک دور تھا کہ جب گھروں میں گہماگہمی ہوا کرتی تھی۔ اب ہر کوئی سمارٹ فون لیے اپنی دنیا میں مگن ہے، کوئی لیپ ٹاپ پر بیٹھا ہے تو کوئی کمپیوٹر پر براجمان ہے۔

جاپان سے روس، آسٹریلیا سے لے کر امریکہ، جرمنی سے کینیڈا تک کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم  تین سے چار گھنٹے ضرور انٹرنیٹ صرف کرتے ہیں، جو کسی نشے سے کم نہیں۔

 ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی تقریبا آدھی آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے اور اس تعداد میں بڑی سرعت کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عام افراد، ریاستیں، ملٹری، بزنس، ہوائی کمپنیاں، انڈسٹریز ،تعلیمی ادارے، الغرض یہ کہ دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہیں، جو انٹرنیٹ پر منحصر نہ ہو۔

ذرا نوٹ کیجئے گا کہ اگر تین چار دن کے اندر آپ سوشل میڈیا کو اپ ڈیٹ نہیں کرتے تو آپ کو اندر ہی اندر ملال ہونے لگتا ہے۔ بلا تردد کچھ لوگ اپ  ڈیٹ نہ رہنے کو جرم تصور کرتے ہیں۔ کچھ بھی اپ لوڈ نہیں کرتے تو دوسروں کی سرگرمیوں کا تجسس آپ کو انٹرنیٹ سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

 لوگ دوسروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کو اپنی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔

یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ انٹرنیٹ کے ذریعے  ہزاروں سکول، کالجز، یونیورسٹی کے بچھڑے دوست ملے تو کئی عاشق و معشوق بھی۔ نا جانے ہر روز کتنے طبقہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھاتے ہیں۔ حالات حاضرہ، دلچسپ واقعات، بےلاگ تبصرے، انٹرنیشنل خبریں، مضحکہ خیز ویڈیوز، قتل و غارت گری کی رپورٹس، سیاسی شعبدہ بازی، مذہبی علماء کی گفتگو، تحریری انفارمیشن، تاثرات کے لیے انٹرنیٹ حاضر خدمت رہتا ہے۔

 علاوہ ازیں انٹرنیٹ نے کاروباری اداروں کے لئے اپنے صارفین کے ساتھ گفت و شنید کرنا بھی آسان بنا دیا ہے، جس سے انہیں اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ ہم لوگوں سے آمنے سامنے رابطہ قائم کرنے کے لئے اسکائپ اور زوم جیسی ویڈیو کانفرنسنگ خدمات بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

انٹرنیٹ ہماری زندگی میں رچ بس گیا ہے۔ لوگ گھر سے باہر نکلیں اور ان کا پیسوں سے بھرا بٹوا رہ جائے تو انہیں کوئی خاصی پرواہ نہیں ہو گی اور اگر سمارٹ فون رہ گیا تو وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر دوبارہ لینے جاتے ہیں۔

 پاکستان میں آئے روز انٹرنیٹ بلیک آؤٹ سے احتجاجی مہم کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن انٹرنیٹ کِل سوئچ سے عوام کے معمولات زندگی خاصے متاثر ہوتے ہیں۔ چند وجوہات پر انٹرنیٹ بند کرنا ڈیجیٹل ہڑتال کے مترادف ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر جاری کام متاثر ہوتا ہے، نیز جزوی انٹرنیٹ سے پروجیکٹ خراب ہوتے ہیں، جس سے ملک کی ساکھ کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔