1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آن لائن تعلیم کے بچوں پر نفسیاتی اثرات

14 جولائی 2021

وبا کے دور میں تعلیم کے حوالے سے دو باتیں اہم رہیں۔ اول یہ کہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں روایتی تعلیم کم وبیش ٹھہر سی گئی۔ دوئم یہ کہ ذریعہ تعلیم میں نئے تجربے ہونے لگے۔

https://p.dw.com/p/3wSs4
Aparna Reddy
تصویر: privat

ڈیجیٹل انڈیا کے برگد تلے طالب علموں کو آن لائن تعلیم کا نیا نظام تھما دیا گیا، جس سے وہ، ان کے اساتذہ اور سرپرست تمام ہی ناواقف تھے۔ ہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر آن لائن تعلیم ممکن نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ اگست دو ہزار نو کے دوران ہندوستان میں تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا۔ اس حق کو بچے بچے تک پہنچانے کی مہم کچھ کاغذ پر تو کچھ کلاس روم میں نظر آنے لگی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ 'نیو ایجوکیشن پالیسی2020‘ بھی منظر عام پر آئی۔ بہرحال وبا کے دور میں تعلیمی ادارے پوری طرح مقفل ہو گئے۔ ملک کے 26 کروڑ بچوں (دنیا کی دوسری سب سے بڑی اسکول جانے والی آبادی) میں سے زیادہ تر مارچ 2020 سے اسکول نہیں گئے۔ تقریبا ڈیڑھ سال سے نہ کلاسز ہوئیں نہ ہی امتحان اور اس حق کی ادائیگی کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا گیا۔ مگر کیا یہ طریقہ معیار اور مقدار دونوں کی فراہمی میں کار گر رہا ہے؟ معاشرے میں برپا سماجی اور اقتصادی نابرابری اور تضادات، ہر ترقیاتی کام کی طرح آن لائن تعلیم کی راہ کو بھی دشوارکرتے نظر آئے۔

ہندوستان کی دارالحکومت دہلی میں بجلی اب کم ہی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کا بھی بول بالا ہے۔ ملک کے دیگر بڑے شہروں کی حقیقت بھی ایسی ہی ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں کچھ سستے ہو رہے سمارٹ فون اور کمپیوٹر کے حوالے سے انٹرنیٹ کی پہنچ بڑھی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ آن لائن تعلیم کے لیے زمین ہموار ہے۔ لیکن جیسے ہی روزانہ اسکول جانا، گھنٹوں  ایک اسکرین کے سامنے بیٹھنے میں اچانک منتقل ہوا ہے، اس سے جڑے مسائل  اب سر اٹھا رہے ہیں۔ شہروں، قصبوں میں بھی اور دیہی علاقوں میں بھی۔

میں دہلی کی ایک متوسط درجے کے ہاؤسنگ سوسائٹی کی مکین ہوں۔ دیکھتی ہوں ٹیچر، ڈاکٹر، صحافی غرض یہ کہ پڑھے لکھے، بیدار، باخبر ہندوستانی لوگ، سبھی اپنے بچوں کے حال اور مستقبل کے حوالے سے پریشان اور فکرمند ہیں۔ بچے نہ دوستوں سے ملتے ہیں اور نہ ہی کھیلتے ہیں، بس اسکرین سے چپکے رہتے ہیں۔ آن لائن تفریح یا خریداری کے لیے، پر آن لائن کلاس سے بچتے ہیں۔

 ان کا دل نہیں لگتا اور اساتذہ کو بھی آن لائن پڑھانے کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے۔ وہ طلبا سے براہ راست رابطے کو ہی بہتر مانتے ہیں۔ ایک دوست کے نو عمر بیٹے اور بیٹی تو نفسیاتی علاج کے لیے جانے لگے ہیں۔ اسکول میں دوستوں سے ملنا جلنا اور وہاں کے ماحول کو بہت یاد کرتے ہیں، والدین سے ناراض رہتے ہیں اور تنہا رہنا پسند کرنے لگے ہیں۔ خاص طور سے وہ نوعمر، جو اسکول کی تعلیم کے آخری پڑاؤ میں ہیں اور کالج جانے کی تیاری کر رہے ہیں، پریشان اور اداس نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کے مسائل ہیں، جن کو تمام تر سہولتیں اور آسائش، خاص طور پر انٹرنیٹ، باآسانی دستیاب ہیں۔

دہلی سے تقریبا چار سے پانچ گھنٹے کی دوری پر آباد ایک قصبہ کیچچھا ہے۔ حال ہی میں میری ملاقات کیچچھا کے رہنے والے نو سالہ اظہر سے ہوئی۔ ان کے چچا، جو ایک بڑھئی ہیں، انہیں اپنے ہمراہ  ہمارے گھر لے آئے تھے۔ اظہر مسکرا نہیں رہے تھے۔ معصوم چہرے پر تناؤ، نظریں نیچی، جیسے کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ میں ہم کلام ہوئی 'کس کلاس میں ہیں آپ؟‘ دھیمے اور نقاہت بھری آواز میں جواب ملا 'دوسری میں۔ ویسے تو چوتھی میں ہونا چاہیے مگر دوسال سے اسکول ہی نہیں جا رہے‘۔ 'فون پر، کمپیوٹر پر نہیں پڑھتے؟‘۔ ''ہمارے اسکول میں یہ سب نہیں ہو رہا ہے‘‘۔ دراصل  ان کے مکتب میں  بجلی کم ہی آتی تھی۔ کمپیوٹر کی تو چھوڑیے، کتابیں اور استاد بھی کم ہی آتے تھے اور اب وہ بند ہے۔

چلیے!  آپ کو ہمالیہ کی گود میں بسے ایک دور دراز کے گاؤں میں لے چلتے ہیں۔ یہاں روایتی طور پر بچے پہاڑ اور ندی عبور کر کے پڑھنے جاتے تھے۔ اب یہ سب اپنے سرپرستوں کے فون پر پڑھتے ہیں۔  ٹیچر کچھ ہوم ورک وغیرہ دے دیتے ہیں، جس میں کورس کی کتابوں پر مبنی سوال اور ان کے جواب لکھے ہوتے ہیں۔ بچے انہیں اپنی نوٹ بک میں نقل کر لیتے ہیں اور رٹ لیتے ہیں اور بغیر امتحان دیے پاس بھی ہو گئے ہیں۔ سب کی تحریر نگینوں کی مانند لیکن سبق کی سمجھ زیادہ تر میں ندارد۔

اسی گاؤں میں18سالہ یشودا رہتی ہے۔ اسکول 14 کلومیٹر دور۔ ذہین ہے اور پڑھ کر آگے پولیس کی نوکری کرنا چاہتی ہے۔ ابھی تک کی پڑھائی لوگوں کے گھروں میں چھوٹا موٹا کام کر کے کی۔ لوگوں سے پیسے مانگ کر بارہویں کی فیس ادا کی تھی مگر امتحان نہیں ہوئے۔ راستے میں ملی تو کہنے لگی، ''آگے پڑھنا چاہتی ہوں پر شہر جاکر پڑھنے کی حیثیت کہاں۔ آپ کچھ کام دلا دیجیے، ساتھ میں آن لائن کورس کر لوں گی‘‘۔  دلت گھر سے ہے۔ گھر میں بجلی نہیں ہے، فون بھی نہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا میں یشودا کی راہ آسان نہیں لگتی۔

حکومت تعلیمی تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے آن لائن تعلیم کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ بہت سے اعلی سرکاری اور پرائیویٹ اداروں نے یہ تبدیلی با آسانی کی بھی لیکن زیادہ تر کے لیے یہ ایک مشکل کام لگتا ہے۔ وزارت تعلیم نے حال ہی میں 15 لاکھ اسکولوں سے جانکاریاں جمع کیں اور جولائی میں ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق وبا کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے دوران ملک میں 22 فیصد اسکولوں میں ہی انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی اور سرکاری اسکولوں کی بات کریں تو صرف 12 فیصد  میں ہی۔

کے پی ایم جی انڈیا اور گوگل کی جانب سے جاری ایک حالیہ رپورٹ 'آن لائن ایجوکیشن اِن انڈیا 2021‘ کے مطابق ہندوستان میں آن لائن تعلیم کی مارکیٹ میں آئندہ تین سال میں آٹھ گنا اضافے کا امکان ہے۔ مگر یہ ای لرننگ بنیادی تعلیم اور باقاعدہ مطالعے کے ہم قدم ہونی تھی، اس کی جگہ نہیں۔ کیا کمروں میں بند، اسکرین سے روبرو نونہال ایک نئے 'اکیلے پن‘ کی وبا کی گرفت میں تو نہیں آ رہے؟ اب جب اسکول کھلیں گے تو کیا یہ بچے اس ماحول کو، اسکول کی فضا کو ، وہاں کی قوانین کو جذب کر پائیں گے۔ آج جب ایک دوسرے سے ملنا پرخطر لگتا ہے، کیا اسکول کالج کی دوستیاں اور بچپن کے کھیل کود پھر سے پروان چڑھ پائیں گے؟

آن لائن تعلیم یقینی طور پر ہمارا مستقبل ہو سکتی ہے مگر  اس نئے ذریعہ تعلیم کے نسل نو پر پڑنے والے موجودہ اثرات کے مدنظر آن لائن ایجوکیشن ایک 'گرے ایریا‘ ہی نظر آتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھارتی ایک معاشرے کی حیثیت سے بھارت کے لیے آن لائن تعلیم کے دائروں کو، تقاضوں کو، اس کے حاصل کو سمجھیں،  سب کی یکساں ترقی کے لیے۔