1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایم ایف سبسڈیز کا خاتمہ کیوں چاہتا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
16 جون 2022

پاکستان میں شہباز شریف کی حکومت نے ایک بار پھر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی کا ایک سونامی آنے کا خطرہ ہے۔ ماہرین نے سبسڈیز ختم کرنے کے سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CnBl
تصویر: Getty Images/Rizwan Tabassu

حکومت کا کہنا ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے کیا، جو عمران خان کی حکومت نے کیا تھا۔ لیکن ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر عالمی مالیاتی ادارے عوام کو دی جانے والی سبسڈیز کے ہی دشمن کیوں ہیں؟ انہیں اور کئی سبسڈی نظر کیوں نہیں آتی۔

سبسڈی کتنی دی جاتی تھی؟

کراچی سے تعلق رکھنے والی نیو لبرل معیشت کی ناقد ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ حکومت اس سال مئی میں ایک سو اسی اعشاریہ سترہ روپے کی سبسڈی پیٹرول پر اور چھیاسی اعشاریہ اکتہر کی سبسڈی ڈیزل پر دے رہی تھی، ''جو بعد میں چھپپن اعشاریہ سات ہو گئی اور اب صرف دو اعشاریہ تیس روپے ہے۔ اب اس سبسڈی کے خاتمے سے پیداواری لاگت آسمان کو چھوئے گی، جس کا نتیجہ صنعتوں اور زراعت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔‘‘

Pakistan Tankwagen Streik
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کیوں

ڈاکٹر عذرا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کبھی بھی جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے کی بات نہیں کرتا، ''پانچ فیصد جاگیردار گھرانے چونسٹھ فیصد زمینوں پر قابض ہیں۔ لیکن ان پر ٹیکس نہیں لگتا کیوں کہ ہماری اشرافیہ آئی ایم ایف کے لیے کمیشن ایجنٹس کے طور پر کام کرتی ہے۔‘‘

آئی ایم ایف کی ناراضگی

ڈاکٹر عذرا کے مطابق آئی ایم ایف کچھ اشیا کی درآمد پر پابندی سے نہ خوش ہے، ''لیکن لگژری اشیا کی درآمد کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔‘‘

سبسڈیز کا خاتمہ اور بے روزگاری کا طوفان

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ سبسڈیز کے ختم ہونے سے بے روزگاری کا ایک طوفان آئے گا، جس سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نوے کی دہائی میں ہمارے ملک میں غربت بہت بڑھی تھی کیونکہ پانچ ہزار صنعتیں بند ہوئی تھیں اور بیس لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے تھے۔ اب ان سبسڈیز کے خاتمے سے پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو گا، جس سے صنعتیں بڑے پیمانے پر بند ہوں گی اور بھوک وافلاس بڑھے گا۔‘‘

Karachi Pakistan traders Strike against IMF budget
تصویر: DW/R. Saeed

عمومی سبسڈیز مناسب نہیں

تاہم کچھ معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ سبسڈیز اور خصوصا عمومی سبسڈیز معیشت کے لیے بہتر نہیں ۔ ماضی میں وزارت خزانہ سے منسلک رہنے والے خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ حکومت عمومی سبسڈیز دے رہی تھی، جس سے پیسے والے افراد کو بھی فائدہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے مارچ میں تیس ارب روپے کی عمومی سبسڈی دی، جو جون میں بڑھ کر ایک سو بیس ارب روپے کے قریب ہو گئی اور اب تقریبا زیرو ہے۔ پاکستان میں بہت سارے امیر افراد پیٹرول کی ایک بڑی مقدار استعمال کرتے ہیں اور عمومی سبسڈی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے اس کو ختم کرنا مناسب تھا۔‘‘

خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ تاہم حکوت اب بھی لاکھوں افراد و گھرانوں کو ٹارگیڈڈ سبسڈی دے رہی ہے، ''اس طرح کی سبسڈی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کو قائل کیا جا سکتا ہے لیکن عمومی سبسڈی دینا مشکل ہوتا ہے۔‘‘

آئی ایم ایف کا قصور نہیں

پاکستان کی معاشی مشکلات کو بہت سارے ناقدین آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں معاشی مسائل، مہنگائی اور غربت بڑھی ہے۔ لیکن خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ داری عالمی حالات پر بھی ہے، ''کورونا کے بعد معیشت بحال ہوئی، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ وہ اسی ڈالرز فی بیرل سے ایک سو بیس ڈالرز فی بیرل ہو گیا۔ اس سے دنیا بھر میں ممالک متاثر ہوئے اور پاکستان بھی اس سے مستشنی نہیں۔ لیکن پاکستان میں یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بھی معاشی حالات متاثر ہوئے ہیں۔ تو آئی ایم ایف پر الزام ڈالنا مناسب نہیں۔‘‘

واضح رہے کہ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں کچھ عرصے پہلے دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستان  امیر طبقے کو سترہ بلین ڈالرز سے زیادہ کی سبسڈیز یا مراعات و سہولیات دیتا ہے۔ ملک کے ارب پتی جاگیر دار کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جانوروں کی خوراک، چاکلیٹ، درآمد شدہ مکھن اور لگژری اشیاء پر بھی اربوں ڈالرز خرچ کرتی ہے۔ اس درآمد سے  اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس طبقے مستفید ہوتے ہیں۔

پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے سے پاکستانی عوام پریشان