1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین کی ترکی سے زبردستی شام واپسی؟

25 مئی 2022

ترکی سے دس لاکھ تک شامی پناہ گزین ایردوآن کے شام کے اندر "محفوظ علاقوں" میں منتقل کرنے کے منصوبے سے پریشان ہیں۔ترکی کے زیر قبضہ علاقوں میں مہاجرین کی آباد کاری اور مخالفین کی واپسی کے خوف سے دمشق بھی ناخوش ہے۔

https://p.dw.com/p/4BrSg
تصویر: Francisco Seco/AP Photo/picture alliance

ترکی میں 3.5 ملین شامی پناہ گزین بڑھتی ہوئی افراط زر کی شرح، اقتصادی گراوٹ اور سن 2023 کے عام انتخابات کی مہم میں کسی کھیل کا گیند بن کر رہ گئے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں، ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شام میں ترکی کے زیر کنٹرول "محفوظ" علاقوں میں رضاکارانہ طور پر واپس جانے کے لیے شامی مہاجرین کی حوصلہ افزائی کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایردوآن کے حقیقی ارادے کچھ مختلف ہیں۔

ترکی کے ایک ماہر اور کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے محقق، آؤنی یلدیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان کا بنیادی مقصد ملک میں مہاجرین مخالف جذبات کو قابو کرنا ہے جو کہ آنے والے انتخابات میں ووٹروں کے لیے ایک اہم موضوع ہے۔‘‘

 ادلب میں مجوزہ "محفوظ زون" اتنے محفوظ نہیں ہیں جتنا کہ ایردوآن نے بیان کیا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین اب بھی روس، جو اسد حکومت کا اتحادی ہے،  کی طرف سے وہاں گولہ باری کی رپورٹ کر رہے ہیں۔ ادلب کا "محفوظ زون" پہلے ہی اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے شامی باشندوں کے لیے ایک مقناطیس بن چکا ہے۔ وہاں انسانی امداد مستقل بنیادوں پر پہنچائی جاتی ہے۔ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق وہاں ایک ملین افراد کے علاقے میں پانچ ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔ گیارہ سال کی خانہ جنگی کے بعد شام کی مجموعی صورت حال اس قدر مخدوش ہو چکی ہے کہ یہ عین ممکن ہے بیان کردہ اعداد و شمار درست ہوں۔

مہاجرین کو زبردستی شام بھیجنے کی کوشش

سن 2019 سے انقرہ حکومت شام کے شمال علاقے میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں تقریباً 50,000 مکانات تعمیر کر رہا ہے۔ 

اس سال کے آخر تک، ترکی کا مقصد ادلب اور اس کے مضافاتی علاقوں میں 100,000 مکانات، اسکولوں، اسپتالوں اور عمومی کاروباری انفراسٹرکچر تعمیر کرنا  ہے۔ لیکن قریبی علاقے محفوظ نہیں ہیں۔

اب بھی جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں، شام کے شمال کو شام اور ترکی کی سرحد کے درمیان 30 کلومیٹر کے بفر زون میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اسے ترکی کے زیر کنٹرول علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو نیم خودمختار کرد علاقے سے متصل ہیں۔

یلدیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ترک حکومت نے کافی عرصے سے کرد قیادت کو بار بار فضائی حملوں کے ذریعے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ یلدیز کے مطابق چونکہ نقل مکانی کے منصوبوں میں عفرین، راس العین جیسے علاقے اور ان کے آس پاس کے علاقے بھی شامل ہیں جن میں بہت سے کرد دیہات ہیں، ''یہ آبادی کے لحاظ سے ایک اہم تبدیلی کا باعث بنے گا۔‘‘

جرمنی: جب شامی مہاجر سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچے

سیاست کے میدان میں مہاجرین کی حیثیت گیند جیسی

شام کی وزارت خارجہ کے لیے، ترکی کی جانب سے مہاجرین کی منتقلی کا منصوبہ "نسل کشی" کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے مطابق، ملک کی وزارت خارجہ نے گزشتہ جمعے کو ایک بیان جاری کیا جس میں ترکی پر شام کے شمال مشرقی حصے میں "نسل کشی" کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

شامی حالات کے ماہر کارسٹن ویلینڈ اور اقوام متحدہ کے سابق مشیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جو لوگ ترکی سے واپس آئیں گے، اُن کا خیرمقدم وہاں کی حکومت کی طرف سے نہیں کیا جائے گا، وہ بشار الاسد کے حامی نہیں ہیں۔‘‘ ویلینڈ کا یہ بھی خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ شامی حکومت دوبارہ شمال پر کنٹرول کر پائے گی۔

کارسٹن ویلینڈ کے مطابق، اگر ترکی نے شام کے شمال میں مزید علاقوں کو ضم کرنے کی کوشش کی تو، ''بشارالاسد فوری طور پر ترکی کے لیے مشکل پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ ویلینڈ کے مطابق، ''اس سلسلے میں، شامی حکومت کا موقف منافقانہ دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ موجودہ صورت حال کے لیے دمشق حکومت خود کو  ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے، لیکن اب اسے اپنی پالیسیوں کی تباہ کاریوں اور اس بے دردی کا سامنا ہے جس کے ساتھ اس نے بغاوت کو کچل دیا۔‘‘

جینیفر ہولیش، کنیپ کارسٹن (ب ج/ ع ح)


شامی مہاجرین کو وطن واپسی پر حکومتی تشدد اور مصائب کا سامنا

شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟