1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیناروے

2011ء کے اوسلو حملے، ناروے کے پاکستانیوں پر کیا گزری؟

22 جولائی 2022

ناروے کے مرکز اوسلو میں گزشتہ ماہ ایک نائٹ کلب دہشت گردی کا نشانہ بنا، جس کے بعد یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی کہ ایسے واقعات میں یہ ڈر فوراً ہی کیوں کود آتا ہے کہ یقیناً حملہ کسی مسلمان نے کیا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4EVJT
Norwegen Utoya | Gedenken an die Opfer der Terrroraattacke 2011
تصویر: Beate Oma Dahle/AFP

گزشتہ ماہ کے اس واقعے سے پاکستانی نژاد نارویجنز کو وہ مشکل لمحات دوبارہ یاد آ گئے، جب آج سے گیارہ برس پہلے 22 جولائی 2011ء کو اوسلو نے تاریخ کا سب سے خونی، جان لیوا اور خوفناک دن دیکھا تھا۔ اس دن ایک دہشت گردانہ حملےمیں 77 افراد مارے گئے تھے۔

22 جولائی کو حملہ آور دوپہر ساڑھے تین بجے کے قریب اوسلو شہر کے مرکز میں ایک سرکاری عمارت کے باہر بارود سے بھری گاڑی چھوڑ گیا، دھماکے سے آٹھ افراد مارے گئے، کئی عمارتیں تباہ ہوئیں اور پورے اوسلو میں خوف سے افراتفری پھیل گئی۔

حملہ آور نے چند گھنٹوں بعد اوسلو کے قریب یوتھویا نامی جزیرے میں جاری لیبر پارٹی کے سمر کیمپ پہ حملہ کیا۔ وہاں 69 افراد کو مار ڈالا  اور ان میں بیشتر کم عمر نوجوان تھے۔

رات آٹھ بجے کے بعد اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ حملہ آور دائیں بازو کا شدت پسند، سفید فام مقامی نارویجن ہے، جس کا نام آندرس بیہرنگ بریویک ہے۔ حملہ آور کی شناخت سے قبل کے چند گھنٹوں میں پاکستانی نژاد نارویجن مسلمانوں نے کیا کچھ دیکھا اور محسوس کیا وہ ایک الگ کہانی ہے۔

Jahrestag des norwegischen Bombenanschlags  in einem Jugend-Sommerlager auf der nahe gelegenen Insel Utoya
عفت قریشی اوسلو میں انسانی حقوق کی کارکن اور فوٹو جرنلسٹ ہیںتصویر: Iffat Rizvi

 پاکستانی نژاد نارویجن محمد انور صوفی پچاس سال سے زائد عرصے سے ناروے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دوپہر کو پہلے حملے سے رات تک کا دورانیہ ناروے میں رہنے والے مسلمانوں اور پاکستانیوں نے اس ڈر کے ساتھ گزارا کہ حملہ آور مسلمان یا پاکستانی نکلا تو ہمارا کیا ہوگا؟قیاس آرائیاں تھیں کہ امیگریشن کے قوانین سخت ہوجائیں گے، مسلم اقلیت کے گرد گھیرا تنگ ہو گا، کہیں ناروے میں بھی ویسے ہی تنگ نہ کیا جائے جیسے نائن الیون کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پُرتشدد واقعات ہوئے، '' ہم دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگے کہ ہماری خیر ہو۔ جب رات کے خبرنامے میں بتایا گیا کہ ایک سفید فام نسل پرست کا حملہ تھا تب کہیں جان میں جان آئی۔‘‘

محمد انور صوفی کے مطابق اس واقعے کو فرد ِ واحد کی دہشت گردی قرار دے کر قالین تلے دبا دیا گیا حالانکہ اوسلو حملے کے ماسٹر مائنڈ بریویک کے نسل پرستانہ نظریات کے حامیوں اور سراہنے والوں کی کمی نہیں۔

عفت قریشی اوسلو میں انسانی حقوق کی کارکن اور فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ اس وقت وہ کیا سوچ رہی تھیں، ان ہی کی زبانی سنیے، ''جس وقت حملہ ہوا، میں اپنی گاڑی میں اوسلو کے مرکزی علاقے کارل یوہانس جارہی تھی، جہاں سے اپنے بیٹے کو لینا تھا، راستے میں نظر آیا کہ اوسلو سٹی کے اوپر آسمان پہ دھواں ہی دھواں تھا۔ اسی دوران پولیس میں کام کرنے والی میری ایک نارویجن دوست کی کال آئی، جس نے اوسلو حملے کا بتایا اور کہا کہ جلدی شہر سے باہر نکلو۔ بس یہی وہ لمحہ تھا، جب میں نے پہلی بار خوف محسوس کیا۔ میں نے اپنے بیٹے ذیشان کو گاڑی میں بیٹھتے ہی چھپ جانے کو کہا کیونکہ میرا بیٹا ذیشان اس وقت سولہ برس کا تھا، اس نے ہلکی داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ اوسلو دہشت گردی میں کسی مسلمان کا ہاتھ ہوا تو لا محالہ کوئی ذیشان کو دیکھ کر اس پہ حملہ نہ کر دے۔‘‘

Jahrestag des norwegischen Bombenanschlags  in einem Jugend-Sommerlager auf der nahe gelegenen Insel Utoya
محمد انور صوفی پچاس سال سے زائد عرصے سے ناروے میں ہیںتصویر: Iffat Rizvi

محمد انور صوفی اور عفت قریشی جیسے پاکستانیوں کے خدشات کسی حد تک درست بھی تھے۔ اوسلو میں قائم بائیس جولائی سینٹر بھی اس جانب نشاندہی کرتا ہے۔ ناروے کی منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے تحت چلنے والے 22 جولائی سینٹر کی ایک دیوار پر حملے کی ٹائم لائن موجود ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ان افواہوں، خبروں، خدشات اور عام نارویجنز کے مشتعل ردعمل کو بھی شامل کیا گیا ہے، جن میں اوسلو حملوں کو ''اسلامک دہشتگردی‘‘ سمجھا گیا۔ پاکستانی، عرب یا صومالی مسلمانوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اشتعال انگیزی کے پیش آنے والے چند ایک واقعات شیئر کیے گئے ہیں۔

 ناروے کی ایک انرجی کمپنی میں کام کرنے والے ایک پاکستانی دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، '' دھماکے کی تفصیل انہوں نے دفتر میں لگے ٹی وی پر دیکھی، جہاں پاس کھڑے ایک دفتری ساتھی نے ذرا اونچی آواز میں کہا کہ اب مسلمانوں کو تیار رہنا ہو گا کیونکہ اب ہم نارویجن بھی ردعمل دیں گے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ اپنے کولیگ کی جذباتی باتیں سننے کے کچھ دیر بعد ہی وہ دل میں ڈھیروں وسوسے لیے دفتر سے گھر روانہ ہو گئے۔

مقصود عاصی ناروے میں پاکستانیوں کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے مجھے اس حوالے سے بتایا، ''میں اوسلو کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ دھماکے کی آواز سنی، معلوم ہوا کہ دہشت گردانہ حملہ ہے تو شک نہیں بلکہ دل میں یقین سا تھا کہ یہ کسی جہادی گروپ کی کارروائی ہو گی تاہم شام تک واضح ہو گیا کہ دہشت گرد مقامی نارویجن ہے۔‘‘

Jahrestag des norwegischen Bombenanschlags  in einem Jugend-Sommerlager auf der nahe gelegenen Insel Utoya
مقصود عاصی ناروے میں پاکستانیوں کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیںتصویر: Iffat Rizvi

مقصود عاصی ان دنوں ٹیکسی چلاتے تھے۔ ان کے مطابق ٹیکسی میں بیٹھنے والے نارویجن مسافر عموماً خاموش رہتے ہیں مگر اُن دِنوں خاصا کھل کر اوسلو حملے کے خلاف اپنی رائے کا یا پھر کبھی کبھی مہاجرین سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے تھے۔ اگرچہ ایسے واقعات بھی سنے کہ باحجاب خواتین سے بدتمیزی کی گئی، ایک پاکستانی مسافر کو بس سے اتارا گیا، تاہم بہت جلد حملہ آور کا نام سامنے آنے پہ معاملات نارمل ہو گئے۔

 کیا پاکستانی اس واقعے کے بعد نارویجن معاشرے کے ردعمل اور ناروے حکومت کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں؟ اس بارے میں عفت قریشی کاکہنا تھا کہ حملے کے کچھ دن بعد اوسلو کی سڑکوں پہ ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے مقامی اور غیر مقامی نارویجن شہریوں نے سرخ گلاب ہاتھوں میں اٹھائے امن مارچ کیا تھا اور اسی کو کافی سمجھ لیا گیا جبکہ ناروے میں نسل پرستی اور اسلاموفوبیا اب بھی ایک حساس مسئلہ ہے، ''میں بہت سے ایسے مسلمانوں کو جانتی ہوں، جنہوں نے سی وی پہ اپنا نام بدل کر نوکری حاصل کی، سوشل میڈیا پہ بھی بعض اوقات مسلمان نارویجنز کو نفرت آمیز رویوں کا سامنا رہتا ہے۔ ناروے کی سیاسی جماعت ایف آر پی حجاب پہ پابندی کی بات کرتی ہے،کئی تنظیمیں کھل کر اسلاموفوبیا کا اظہار کرتی ہیں۔‘‘

عفت قریشی کا کہنا ہے کہ بائیس جولائی سے قبل ناروے کی سکیورٹی کا مکمل فوکس مسلمان شدت پسندانہ عناصر تھے تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نسل پرست دہشت گرد بریوک کہیں باہر سے نہیں آیا تھا، یہیں اوسلو کے پوش علاقے میں پلا بڑھا تھا۔

 مقصود عاصی کے مطابق 22 جولائی کے بعد ناروے کے اخبارات نے دائیں بازو، نسل پرستی، وائٹ سُپرمیسی کے خلاف تجزیات لکھے، ''ٹی وی پہ اس موضوع پہ پوری سیریز دکھائی گئیں،اور اس مسئلے کے ہونے کو قبول کیا گیا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ناروے کا بطور معاشرہ ردعمل کافی متوازن تھا۔‘‘

نارویجن قوم اگرچہ 22 جولائی کے خونی دن کو کبھی نہیں بھولی گی تاہم اس واقعے کے پیچھے چھپے محرکات پر وقت کی گرد جمتی جا رہی ہے۔ اوسلو کی سڑکوں پر مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف اب بھی سال دو سال بعد درجن بھر نسل پرستوں کا مظاہرہ ہو جاتا ہے لیکن ناورے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مطابق اچھی بات یہ کہ انہیں جواب دینے کے لیے نارویجنز سینکڑوں کی تعداد میں نکلتے ہیں اور کھل کر نسل پرستی کے خلاف اپنے احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔