1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملازمت پیشہ ماؤں کا المیہ

24 فروری 2023

موجودہ حالات میں باپ کے ساتھ ماں کا کمانا بہت ضروری ہو چکا ہے تاکہ بچوں کو مناسب سہولیات اور تعلیم مہیا کرنے کے اخراجات نکالے جا سکیں۔ لیکن اس میں رکاوٹ کیا ہے؟ پڑھیے عارفہ رانا کا تازہ بلاگ۔

https://p.dw.com/p/4Nvys
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

بچے کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کا کردار ہی متوازن ہونا چاہیے۔ ہر بات کے لیے صرف ماں کو ہی  ذمہ دار قرار دے دیا جانا مناسب نہیں۔ تاہم ہمارے معاشرے میں اچھی ماں کا جو معیار مقرر ہے، اس پر بہت ہی مشکل سے کوئی پورا اترتا ہے۔ خاص طور سے وہ مائیں جو کسی نہ کسی طرح کی ملازمت کر رہی ہیں۔

موجودہ حالات میں باپ کے ساتھ ماں کا کمانا بہت ضروری ہو چکا ہے تاکہ بچوں کو مناسب سہولیات اور تعلیم مہیا کرنے کے اخراجات نکالے جا سکیں۔ کچھ گھرانوں میں باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت ماں کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ایسے میں مائیں اپنے بچوں کو کہاں چھوڑیں؟

اس سوال کا جواب ڈے کئیر ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں تربیت یافتہ خواتین ملازمت پیشہ ماؤں کے بچوں کو سنبھالنے پر مامور ہوتی ہیں۔ مگر عمومی رائے یہی ہے کہ ڈے کئیر میں جانے والے بچے خراب ہو جاتے ہیں یا ماں کو لاپروا ہونے کا الزام سہنا پڑتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو موجودوہ دور میں پاکستان کے بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں یہ سہولت مہیا کر دی گئی ہے مگر ان کے حالات کافی ابتر ہیں۔ اگر جگہ مناسب اور کافی ہے تو سٹاف ناکافی یا غیر تربیت یافتہ ہے۔

بہت سے پرائیویٹ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کام کرتی ہیں اور وہ کل سٹاف کا پچاس فیصد سے زائد ہیں لیکن ان کے ملازمین کو یہ سہولت نہیں دی گئی۔ ان میں بینک سر فہرست ہیں اور اس کے بعد پرائیویٹ کمپنیز آتی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ جس ٹریڈ سینٹر میں آفس موجود ہوں وہاں ایک ڈے کئیر لازمی ہو۔ اگر بزنس کے لیے علاقہ مخصوص کیا جا سکتا ہے تو یہ شرط بھی لگائی جا سکتی ہے کہ وہاں کام کرنے والی ماؤں کے لیے لازمی سہولیات میسر ہوں۔

ان سہولیات کے ناکافی ہونے کا ادراک مجھے اپنے موجودہ جاب ہنٹ کے دوران ہوا جب جابز کے پیکج اور ان تک پہنچ میرے لیے آسان تھی مگر میری ڈیڑھ سالہ بچی کے لیے کوئی ڈے کئیر موجود نہ تھا جبکہ پرائیوٹ ڈے کئیر کافی دور اور مہنگا تھا۔

پاکستان کا آئین ماں اور بچے کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی شہری کی جنس کی وجہ سے کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ آرٹیکل 18 کے مطابق مرد ہوں یا خواتین ہوں انہیں ہر جائز پیشہ اختیار کرنے کا حق ہے۔

اسی آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق ریاست خواتین اور بچوں سمیت سب کے لیے مناسب سہولیات مہیا کرنے کی پابند ہے۔ اور اسی وجہ سے ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈے کئیر سینٹر بل 2018 سینٹ نے پاس کیا گیا، جس کی رو سے تمام گورنمنٹ اور پرائیویٹ ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ اگر وہاں خواتین ملازمت کرتی ہیں تو ان کو ڈے کئیر کی سہولت مہیا کی جائے۔ ان ڈے کیئرز کو چلانے کے لیے گائیڈ لائنز بھی مرتب کی گئیں ہیں۔

ان ڈے کیئرز کی ملکی ترقی میں اہمیت کو سمجھنے کی خاطر چین کی مثال غیرمعمولی ہے، جہاں ایسے مردوں کو بھی یہ سہولت حاصل ہے جو ملازمت کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی پال رہے۔ اگر پاکستان میں سنگل مرد حضرات کو یہ سہولت میسر نہیں ہو سکتی تو کم ازکم خواتین کو ہونا چاہیے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔