جرمنی میں صدر نے انتخابی اصلاحاتی قانون پر دستخط کر دیے
وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائیر کی طرف سے جس متنازعہ قانون پر دستخط کیے گئے ہیں، اسے قانون سازوں نے پہلے ہی منظور کر لیا تھا۔
صدارتی دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اشٹائن مائیر کے اس قانون پر دستخط ایک رسمی بات تھی اور اس قانون پر نظر ثانی کے مطالبے کی ان کے پاس کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی۔
جرمن قانون سازوں کی طرف سے پہلے ہی اس پر اتفاق کیا جا چُکا تھا۔ اب یہ قانون وفاقی رجسٹر میں اندراج کے ساتھ ہی نافذ العمل ہو چکا ہے۔ تاہم اس نئے قانون کا وفاقی آئینی عدالت یقینی طور پر جائزہ لے گی اور اسے چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
دو جماعتوں کی مخالفت
جرمن صوبے باویریا کی قدامت پسند کرسچن سوشل یونین (CSU) کی حکومت اس قانون کو چیلنج کرنے کا پہلے ہی اس کا فیصلہ کر چُکی ہے۔ دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت بھی نئے قانون سے ناخوش ہے اور اس قانون کو جرمن آئین کے غیر مطابق سمجھتی ہے۔
نئے قانون سے دراصل دونوں جماعتوں کو نمائندگی کھونے کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمن صدر اشٹائن مائیر کا تاہم کہنا تھا، ''یہ افسوسناک امر ہے کہ وفاقی جرمن پارلیمان میں نمائندگی کرنے والی جماعتیں انتخابی قانون میں اصلاحات کے لیے وسیع تر سیاسی اتفاق رائے تک پہنچ سکیں"۔
یہ قانون جرمنی کی وفاقی پارلیمان بُنڈس ٹاگ کے ایوان زیریں میں مارچ میں منظور کیا گیا تھا تاہم سی ایس یو اور لفٹ پارٹی کی حمایت کے بغیر جبکہ ایوان بالا یعنی بُنڈس راٹ میں اسے مئی کے ماہ میں پاس کیا گیا تھا۔
موجودہ وفاقی پارلیمان
جرمنی کی موجودہ وفاقی پارلیمان 736 اراکین پر مشتمل ہے۔ یہ پارلیمان دنیا کی سب سے بڑی منتخب پارلیمان ہے۔ نئے انتخابی قانون کے تحت وفاقی پارلیمان کی نشستوں کو کم کر کے 630 کی حد بندی کر دی گئی ہے۔ ماضی میں انتخابات کے نتائج کے مطابق بُنڈس ٹاگ یا وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں کو بڑھایا جا سکتا تھا۔
جرمن شہری پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ ایک براہ راست علاقائی امیدوار کے لیے اور ایک پارٹی کے لیے۔ پارٹی ووٹوں پر پارلیمان میں پارٹی کی طاقت کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر کوئی پارٹی پہلی ووٹنگ کے ذریعے زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہے تو اسے دوسری ووٹنگ کی بنیاد پر اپنی کم سے کم مطلوبہ یعنی 598 سیٹوں میں اضافے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح تمام پارٹیوں کو صحیح تناسب سے ووٹ کے حصول کا برابر حق ملتا ہے۔
انتخابات میں اصلاحات کے نئے قانون سے پارلیمان میں ''اوور ہنگ سیٹوں‘‘ سے جھٹکارا مل جائے گا۔ نئے قوانین کے تحت، ہر وہ پارٹی جو بنڈس ٹاگ میں داخل ہونا چاہتی ہے اُس کے لیے ملک بھر میں دوسرے ووٹوں کا کم از کم 5 فیصد حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ یہ امر سی ایس یو جیسی علاقائی پارٹی یا بائیں بازو کی پارٹی کے لیے مشکل ہے جو پورے ملک میں مضبوط نہیں ہے۔
ک م/ ع ب (ڈی پی اے، اے پی)