امریکہ اور سعودی عرب کا سوڈان میں نئی جنگ بندی پر زور
رواں برس اپریل کے وسط میں جنرل عبدالفتاح برہان کی سربراہی میں ملکی فوج اور ملک کی پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہونے کے بعد سے سوڈان میں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورسز کی سربراہی جنرل محمد ہمدان داگلو کر رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے سعودی عرب اور امریکہ ان دونوں متحارب گروپوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں۔ 21 مئی کو دونوں ممالک نے ایک عارضی جنگ بندی معاہدہ طے کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی تاکہ جنگ سے متاثرہ اس ملک میں بدترین صورتحال میں گھرے لوگوں تک انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم اس کوشش کو اس وقت دھچکہ لگا جب بدھ کے روز سوڈانی فوج نے اعلان کیا کہ وہ سعودی شہر جدہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والی بات چیت میں مزید شرکت نہیں کرے گی۔
سوڈانی فوج کے اس فیصلے کے بعد امریکہ اور سعودی عرب نے کہا تھا کہ محدود وقت کے جنگ بندی معاہدے کی شدید خلاف ورزیوں کے سبب وہ بات چیت کا سلسلہ معطل کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے سوڈان کی اہم دفاعی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی تھی جو ملکی فوج اور آر ایس ایف کے زیر انتظام کام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ان لوگوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں جو سوڈان میں 'تشدد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘۔
آج اتوار چار جون کو واشنگٹن اور ریاض کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے ان نمائندوں سے رابطہ کاری کا سلسلہ جاری رکھا جو جدہ میں موجود تھے۔ بیان میں دونوں متحارب گروپوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایک نئی سیزفائر پر اتفاق کریں اور اس پر عمل کریں۔ اس کا حتمی مقصد جنگ سے متاثرہ اس ملک میں تشدد کا سلسلہ مستقل روکنا بتایا گیا ہے۔
سوڈان ٹوٹ رہا ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
سوڈانی فوج اور ریپڈ ایکشن فورس کے درمیان لڑائی کے سبب دارالحکومت خرطوم اور دیگر کئی شہری علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ اسی سبب ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بھی بدتر ہے اور لوٹ مار معمول بن چکا ہے۔
یہ تنازعہ اب تک 16 لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کا سبب بھی بن چکا ہے جو اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات یا قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
سوڈانی شہریوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو روز سے دارالحکومت خرطوم اور اس کے قریبی شہر اومدرمان اور باہری میں شدید لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ا ب ا/ک م (اے پی، روئٹرز)