1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی شاہی خاندان کس حد تک جرمن ہے؟

29 مارچ 2023

یورپی شاہی خاندانوں کے قریبی تعلقات کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برطانوی شاہی خاندان میں جرمنی سے تعلق کی جڑوں کی گہرائی ہماری سوچ سے بھی گہری ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Guou
Britische Monarchie | Ausstellung «By George! Händels Musik für königliche Anlässe»
برطانوی شاہی خاندان اور جرمنی کا بہت گہرا تعلق ہےتصویر: National Portrait Gallery/dpa/picture alliance

300 سال پہلے 12 اگست 1712ء جارج لُڈوش فان ہنوور انگلینڈ کا بادشاہ جارج اول قرار پایا تھا۔ تخت کے واحد ممکنہ وارث کی حیثیت سے انگلینڈ کے تخت پر براجمان ہونے والا وہ پہلا بادشاہ تھا۔ تب یورپ میں یہ رواج تھا کہ جرمن خاندان کے فرد کو شہنشاہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل تھا۔

شاہی آداب کا فقدان

جرمن بادشاہ جارج لُڈوِش فان ہنوور نے انگلینڈ کی بادشاہت کے اعلان کے دو سال بعد برطانوی سر زمین پر قدم رکھا۔ ان کی تاج پوشی اعلان کے دو سال بعد یعنی 1714ء میں ہوئی۔ ان کی اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہو چُکی تھی اور وہ ایک ہی وقت میں دو خواتین کے ساتھ قریبی تعلقات لے کر چل رہے تھے۔ جارج لُڈوش بمشکل انگریزی بول پاتے تھے اور وہ شاہی آداب و اطوار سے نابلد تھے۔ یہاں تک کہ انہیں دسترخوان اور ضیافتوں کے آداب بتانے کے لیے باقاعدہ پروٹوکول کی ہدایات دی گئیں تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ضیافتوں کے دوران نوکروں پر بھنا گوشت وغیرہ پھینکنا شاہی آداب کے خلاف ہے۔

دوسری جانب انگریزوں کو یہ احساس بھی ہے کہ جارج لُڈوش نے اپنے دور میں اپنی سلطنت کو کیا کچھ دیا۔ انہوں نے ہی سکاٹ لینڈ میں دو بغاوتوں کو ختم کیا، دو پارٹی نظام قائم کیا جو آج بھی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہترین بحری نظام کی تشکیل کی اور برطانوی سلطنت کو وسعت دی۔

ناروے سے موناکو تک: بارہ یورپی بادشاہتیں، براعظموں سی متنوع

Großbritannien | Queen Elizabeth | Krone mit Koh-i-Noor
برطانوی ملکہ کا تاجتصویر: Michael Crabtree/dpa/picture alliance

جارج دوئم اور جارج سوئم

جارج لُڈوش کے بیٹے جارج دوم نے برطانیہ کے عوام کو اُس کا قومی ترانہ دیا۔ جس کے الفاظ شروع میں یہ تھے،'' گاڈ سیو دا کنگ‘‘ بعد ازاں ملکہ کے لیے اُسے '' گاڈ سیو دا کوئن‘‘ کر دیا گیا۔ ان ہی کی نسل کے چشم و چراغ جارج سوئم جرمن نژاد بادشاہوں کی صف میں پہلے فرد ہیں جس کی پیدائش انگلستان میں ہوئی۔ ان کی مادری زبان انگریزی تھی۔ وہ جرمن کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی بولتے تھے۔ ان کی شادی جرمن شہزادی شارلوٹے سے ہوئی تھی جن کا تعلق شمالی جرمن علاقے میکلنبرگ اشٹریلٹس سے تھا۔ جرمن شہزادی نے 15 بچوں کو جنم دیا۔

جارج سوئم ایک طبی عارضے میں مبتلا تھے جو ان کی شدید نوعیت کی ذہنی بیماری کا سبب بنا۔ اس عارضے کے سبب وہ تخت و تاج سنبھالنے کے قابل نہ رہے۔ انہیں ''دی میڈ مین‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔ 

نئے برطانوی بادشاہ کی انتہائی پیچیدہ اور مشکلات سے گھری میراث

جارج چہارم اور شاہی خاندان کی ساکھ کا گرنا

ان کے سب سے بڑے بیٹے جارج اُگسٹ فریڈرش نے ان کی زندگی ہی میں ریاستی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور 1820ء میں اگلے بادشاہ بن گئے۔ ان کی جڑیں خالصتاً جرمن تھیں۔ ان کی غیر معمولی زندگی نے انہیں اپنی رعایا میں کچھ اچھا نام نہ دیا۔ وہ بالکل مقبول نہ تھے۔ انہیں، ''چربہ‘‘ کا لقب دیا گیا۔ یہ ایک ایسے بادشاہ تھے جن کی موت پر برطانیہ میں کوئی سوگ نہیں منایا گیا۔

 انہوں نے کوئی خاص سیاسی وراثت بھی اپنے پیچھے نہ چھوڑی لیکن ایک بہت اہم ثقافتی ورثہ آنے والے وقتوں کے لیے ضرور چھوڑا۔ بکنگھم ہاؤس۔ اس ہاؤس کی توسیع کر کے ایک محل بنایا گیا اور یہ آج تک یورپ کے ایک غیر معمولی ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے۔  یہ رائل پویلین خوشحالی کی علامت کے طور پر بھی منفرد ہے۔  

London Windsor Chapel St. George
پرنس آف ویلز کی ڈنمارک کی شہزادی سے شادی 18 مارچ 1863 ء کو ہوئی تھیتصویر: The Print Collector/Heritage Images/picture alliance

ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ

1837ء  میں، جارج چہارم کی بھانجی، وکٹوریہ، جو بنیادی طور پر جرمن نژاد تھیں، کو تاج پہنایا گیا۔ وکٹوریہ نے اپنے کزن جرمن شہزادہ 'البرٹ آف سیکسنی کُوبرگ اور گوتھا‘  سے شادی کی۔ البرٹ اپنی رعایا کے لیے سرگرم رہے اور انہوں نے انگلینڈ میں کرسمس ٹری لگانے کا جرمن رواج عام کیا۔ وہ 1851ء  میں لندن میں پہلی عالمی نمائش بھی لے کر آئے  اور سلطنت میں انتظامیہ اور عمارتوں کی تعمیری کاموں کی اصلاح بھی کی۔ البرٹ کے ساتھ  برطانوی شاہی خاندان نے اپنا وقار دوبارہ حاصل کر لیا۔ لندن کے وسط میں جرمن شہزادے کی ساتھی کا ایک شاندار مجسمہ ہے۔ لندن میں البرٹ برج کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا، اورمشہور کنسرٹ رائل البرٹ ہال بھی ان ہی کی یادگار ہے۔

کینیڈا میں ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ کے مجسمے گرا دیے گئے

یورپ کی ''مادر بُزرگ‘‘

 ملکہ وکٹوریہ دریں اثنا، نو بچوں کی ماں کے طور پر اپنے کردار کے ساتھ ساتھ ایک نمائندے کا کردار بھی ادا کر رہی تھیں۔ خارجہ پالیسی پر ان کے  اثر و رسوخ کی بنیاد دراصل یورپ کے تمام اہم حکمران گھرانوں سے ان کے خاندانی تعلقات تھی۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بچوں کی شادیاں دیگر یورپی شاہی حاندانوں میں کیں اور اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وکٹوریہ کی اولادیں بہت سے یورپی شاہی محلوں میں تخت نشیں ہوئیں: ڈنمارک کی ملکہ مارگریتھے، ناروے کے کنگز ہیرالڈ اور سویڈن کے کارل گُستاف، سابق ہسپانوی شاہی جوڑے خوآن کارلوس اور صوفیہ - الزبتھ ثانی تک۔ وکٹوریہ کو ''یورپ کی دادی‘‘ کا لقب ملا اور وہ 64 سال تخت پر رہنے کے ساتھ برطانیہ میں سب سے طویل عرصے تک شاہی مسند پر براجمان رہیں۔ 120 سال بعد اُن کی پڑپوتی الزبتھ دوم نے البتہ انہیں پیچھے چھوڑ دیا اور 70 برس تک تخت نشین رہنے کے بعد آٹھ ستمبر کو 96 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

سلکے وؤنش (ک م / ا ب ا)